کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری
قسط 3
مایو کو بلڈ دے دیا گیا تھا۔۔۔۔۔
آپریشن بھی سکسسفُل رہا تھا۔۔۔۔۔
شہزین اور شاہزیب دونوں آپریشن روم سے باہر کھڑے ڈاکٹر کا بےصبری سے انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔ جب شاہزیب کو دادو کی کل آئی۔۔۔۔۔
شاہزیب نے دادو کی کال پک کرتے ہوئے بولا۔۔۔
"السلام وعلیکم دادو!!
جب دوسری طرف سے دادو نے شاہزیب کی سلام کا جواب دے کر کُچّھ پوچھا تو شاہزیب بولا۔۔۔۔
"دادو مائشا کو بلڈ دے دیا ہے۔۔۔۔
اور آپریشن بھی سکسسافل رہا ہے۔۔۔۔۔۔
دادو نے دوسری طرف سے نہ جانے کیا پوچھا ۔۔۔
کی شاہزیب بولا ۔۔۔۔۔۔۔
"دادو یہ تو پتہ نہیں بلڈ دینے والا کون ہے ؟؟؟؟
لیکن جو بھی تھا اُسنے ڈاکٹرز کو منا کیا ہے کسی کو بتانے کو۔۔۔۔
ٹھیک ہے دادو میں آپکو اطلاع دیتا رہونگا۔۔۔۔
اللہ حافظ شاہزیب نے بول کر موبائل کو پاکٹ میں رکھا۔۔۔۔
اور شہزین کی طرف متوجہ ہوتے ہووے بولا ۔۔۔۔۔۔
بھائی!!
"آخر ہے کون یہ شخص ؟؟؟؟؟
جس نے مایو کو بلڈ دیا ہے۔۔۔۔۔
اور پھر اپنا نام بھی چھپانا چاہتا ہیں۔۔۔۔۔
پتہ نہیں شاہزیب!!!
لیکن جو بھی ہیں۔۔۔۔
ہماری ایک ٹینشن تو ختم کر دی اس شخص نے شہزین نے ایک لمبی سانس کھینچتے ہووے شاہزیب سے کہا۔۔۔۔
ہاں بھائی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔۔
سچ میں بھائی جب سے صرفان نے بلڈ کا انتظام کرنے کو بولا تھا ۔۔۔۔
تب سے میرے تو دماغ کی نس ہی پھٹنے کو ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔
اتنی ٹینشن ہو رہی تھی کہ مجھے پیں کلر لینی پڑی تھی ۔۔۔۔۔
شاہزیب شہزین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہووے بولا۔۔۔۔
مجھے بھی۔۔۔
شہزین نے بھی شاہزیب کی بات کی تائید کی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ابھی بات ہی کر رہے تھے جب آپریشن روم کا دروازہ کھلا اور روم سے باہر نکلنے والا شخص صرفان تھا۔۔۔۔۔
جب شاہزیب نے صرفان کو دیکھا تو اُسکے پاس جاکر جلدی سے بولا۔۔۔۔۔
شیری یار اب کیسی ہے مایو؟؟؟؟
She is out of dangerous now...
And
she is fine...
صرفان نے شاہزیب کے کندھے کو تھپکی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
جسے سنکر شہزین کی سانس میں سانس آئی۔۔۔۔۔
شہزین بولا ۔۔۔
ہم کب تک مل سکتے ہیں مایو سے؟؟
بھائی!!!
ابھی ہم اسکو پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دینگے۔۔۔
پھر آپ لوگ اُسّے مل سکتے ہیں۔۔۔۔
صرفان نے شہزین کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
اوک!!
شہزین ایک لفظی جواب دے کر چپ جو گیا ۔۔۔۔
اچّھا بھائی میں چلتا ہوں۔۔۔
مجھے اور بھی کُچّھ مریضوں کو دیکھنا ہے۔۔۔۔۔ صرفان شہزین سے بولا۔۔۔
اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔
*************************
منہال جب سے ہسپتال سے واپس گھر آیا تھا۔۔
منہال کو عجیب سے بےچینی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
جو اُسّے بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔
وہ اپنے روم میں بےچینی سے کبھی ادھر تو کبھی اُدھر چکر پر چکر لگا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی اس بےچینی کو کوئی بھی نام نہیں دے پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟؟؟؟
آخر مجھے سمجھ کیو نہیں آ رہی ہے اس بےچینی کی وجہ۔۔
منہال بیڈ پر بیٹھتے ہووے خود سے بڑ بڑا یا۔۔۔۔۔
شاید تھکان کی وجہ سے ہو رہی ہے یہ بےچینی۔۔۔۔۔
منہال خود سے اندازہ لگاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
میں کچھ دیر سو جاتا ہوں شاید یہ بےچینی ختم ہو جائے۔۔۔۔
ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔۔۔۔۔۔
منہال پھر سے بڑ بڑا تے ہووے بیڈ پر آ کر لیٹ گیا۔۔۔۔۔
اور سونے کے لیے آنکھیں بند کر لی۔۔۔۔۔
پر یہ کیا ہمارے منہال صاحب کی آنکھوں کے سامنے اس من موہنی لڑکی کا آدھا خوبصورت سا چہرا لہرانے لگا۔۔۔۔۔۔
اب یہ کیا ہے؟؟؟؟
منہال جھنجھلاہٹ سے بڑ بڑا تے ہووے اٹھ بیٹھا۔۔۔۔۔
اب اس کا چہرا میری آنکھوں کے سامنے کیوں لہرا رہا ہے؟؟؟؟؟
اللّٰہ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔
شائد میں اس لڑکی کے بارے میں زیادہ ہی سوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔
ہوں ں
لگتا ہے اب مجھے بلکل بھی نیند نہیں آنے والی۔۔۔۔
منہال ایک لمبی سانس کھینچتے ہووے سائڈ ڈراور سے سلیپنگ ٹیبلیٹ نکالی اور ٹیبل پر سے پانی لیا اور میڈیسن لیکر پھر سے بیڈ پر آکر لیٹ گیا ۔۔۔۔
دھیرے دھیرے اسکو نیند آنے لگی۔۔۔۔
ٹھندی دسمبر کی شام دور افق پر سورج کی لال کرنے سورج غروب ہونے کا پتہ دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
اسکو ابھی سوئے ہووے دو ہی گھنٹے ہووے تھے۔۔۔۔ جب اسکو اپنے موبائل کے چنگھاڑنے کی آواز سنائی دی۔
بپ.. پ پ پ.....
بیپ ........
جو شائد الارم تھا۔۔۔
جو اُسنے سونے سے پہلے لگایا تھا ۔۔۔
اُسنے بوجھل نیند کی آنکھوں سے سائڈ سے موبائل اٹھا کر الارم کو بند کیا آنکھوں مسلتے ہوئے ٹائم دیکھاجو شام کے ساڑھے چھ بج نے کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔
میں دو گھنٹے سویا ہوں ۔۔۔۔۔
منہال خود سے بڑ بڑا تے ہووے شاور لینے باتھرُوم چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ شاور لیے کر باتھرُوم سے نکلا تو کوئی اُسکے روم کا دروازہ ایسے نوک کر رہا تھا جیسے ابھی دروازے کو نوک کرنے والا شخص دروازے کو توڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔۔۔۔۔
دھڑا ڈھر..............
ڈھر ڈھر.....................
وہ اچھے سے جانتا تھا کی کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔
کیونکہ ۔۔۔۔۔
اُسکا کوئی بھی نوکر اُسکے روم کا دروازہ ایسے نوک کرنی کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔۔
وہ پھر بھی انجان بنتے ہووے بولا۔۔۔۔۔۔۔
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کّھڑے ہو کر اپنے بالوں کو سیٹ کرنے لگا۔۔۔۔۔
مقصد صرف آنے والے کو پریشان کرنہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی ی ی ی..............
دروازہ کھولیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں تو میں آپکے روم کا دروازہ ہی توڑ دنگی۔۔۔۔۔۔۔
مدیحہ کے اس طرح چلّانے پر منہال کے چہرے پر ایک دم مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
منہال اپنے بالوں کو سیٹ کرتے ہووے اندر سے ہی چلّایا۔۔۔۔۔۔۔
رک جاؤ آ رہا ہوں۔۔۔۔۔
باہر سے مدیحہ کی غصے سے چلانے کی آواز آئی کتنی سینچری کے لیے رُکنا ہے بھائی؟؟؟؟؟
آپ کھول رہے دروازہ یہ نہیں ۔۔۔۔۔
مدیحہ غصّے میں پھر سے بھڑکتی ہوئی بولی ۔۔۔۔۔
منہال مدیحہ کو اور مجید پریشان کرنے کا ارادہ ملتوی کرتے ہووے دروازہ کھول دیا۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ کیا ؟؟؟
دروازے کے کھلتے ہی مدیحہ اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے منہال کو گھور گھور کر دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
اے اے نکچھڑھی مجھے ایسے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہی ہے؟؟؟
مجھے پتہ ہے میں بہت خوبصورت ہوں۔۔۔
اور ایک زمانے سے اس خوبصورت بندے پر بہت سی لڑکیاں جان دینے کو تیار بھی ہے۔۔۔۔۔
لیکن مجھے تمہارا گھور نہ سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔
بھائی پہلے تو آپ مجھے نكچھڑھی کہنا بند کیجئے۔۔۔
مدیحہ منہال کو وارننگ دیتے ہوئی بولی۔۔۔۔۔۔
اور لگتا ہے بھائی آپکو اپنی جان بلکل بھی پیاری نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔
مدیحہ منہال کے دروازہ کے درمیان ہی کھڑی ہوکر چلّائی۔۔۔۔۔۔
ارے ارے لڑکی نہ کوئی سلام نہ کوئی دعا ۔۔۔۔۔
اور آ رہی ہو گڈھے پر سوار ہو کر۔۔۔۔۔۔۔۔
منہال نے جان بوجھ کر گھوڑے کی جگہ گڈھے کو لگاتے ہوئے مدیحہ کو منسہي غصے سے ڈانٹتے ہووے گدھے لفظ زور دے کر بولا۔۔۔۔۔۔
بھائی ی ی !!!
میں نہیں گدھے پر سوار ہوئی ہوں۔۔۔۔
بلکہ آپ رہتے ہے ہمیشہ گوری لے پر سوار ۔۔۔۔۔۔
مدیحہ نے بھی حساب برابر کیا ۔۔۔۔
بس بس رہنے دو نکچڑھي ۔۔۔۔
مجھے تو یہاں کہیں پر بھی گوریلا نہیں دکھ رہا ہے؟؟؟؟
منہال ادھر اُدھر جھانکنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔۔۔
بھائی ی ی ی........
آپنے مجھے پھر سے نکچڑهي بولا۔۔۔۔۔
ہاں تو تمہاری ناک پر ہمیشہ غصّہ ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔۔
تو تمہیں نكچھڑھی ہی بولونگا نہ۔۔۔
بھائی!!!
سچ میں اگر ماما اور بابا کا خیال نہ ہوتا تو .....
پکّا آج آپکا قتل میرے ہی ہاتوں سے ہو جانا تھا۔۔۔۔۔
اور مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی مدیحہ منہ پھلاتے ہوئے چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔
جب منہال نے مدیحہ کو ایسے دیکھا تو کان پکڑتے ہوئے بولا۔۔۔
کیونکہ
وہ چھوٹی سی لڑکی ۔۔۔۔
موٹی موٹی کالی کٹیلی آنکھیں بھرے بھرے گال گلابی پنکھڑی جیسے لب گیہنوا رنگ اور شولڈر تک آتے بال جسکو اُسنے ہائی پونی میں مقید کر رکھے تھے ۔۔۔۔۔۔
یہ چھوٹی سی لڑکی اور اُسکے ماما بابا یہی تو اُسکے اپنے اُسکی قل کائنات تھے۔۔۔۔۔۔
جو اُسکے لیے بہت معائنے رکھتے تھے۔۔۔۔۔
وہ انّ اپنوں کے پاس آکر کُچّھ پلوں کے لیے اپنا ہر گم ہر درد جو وہ راتوں کو جگ کر گزارتا تھا وہ بھول جاتا تھا۔۔۔۔۔
جیسے ہی وہ ان سے دور ہوتا پھر سے اپنے اذیت سے گزرے وہ پانچ سال جو اس نے انگاروں پر کٹی وہ راتیں یاد آنے لگتی۔۔۔۔۔
اُسنے اپنے درد کو یاد کرتے ہوئے قرب سے آنکھیں بند کر لی ۔۔۔۔
اور خود کو سنبھالتے ہوئے جھوٹی مسکراہٹ چہرے پر سجھائے مدیحہ کے گالوں کو کھینچتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
اچّھا سوری ۔۔۔
اب نہیں بولونگا۔۔۔۔
ارے میری پیاری سی چھوٹی سی منّی سی بہن ۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنا غصّہ کس بات کے لیے؟؟؟؟
سچ میں مجھے تو شدید قسم والا درّ لگ رہا ہے۔۔۔۔
بھائی رہنے دے۔۔۔۔۔
یہ جھوٹی ایکٹنگ میرے سامنے نہیں چلے گی ۔۔۔۔۔۔۔
سمجھے۔۔۔۔۔۔
آپکو پھر سے وہ جیا چوڑیل یاد آنے لگی نہ۔۔۔۔۔۔
مدیحہ ایک پل کے لیے اپنی ناراضگی کو بھول کر منہال کی چوری کو پکڑتے ہوئے چوڑیل پر جور دے کر بولی۔۔۔۔
منہال نے جب اس شخص کا نام سنا تو قرب سے آنکھیں بند کر لی اور آنسوؤں کو اپنے اندر دھکیلتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔
مدیحہ پلیز میرے سامنے اُسکا نام بھی مت لو۔۔۔۔۔۔
بھائی پھر آپ اسکو بھول کیوں نہیں جاتے ؟؟؟؟مدیحہ اپنے جان سے پیارے بھائی کو دیکھتی ہوئی بے بسی سے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔
مدیحہ میں بھولنا چاہتا ہوں لیکن بھول نہیں پاتا ۔۔۔۔۔۔
اب تو مجھے اپنے آپ سے بھی نفرت سی ہونے لگی ہے۔۔۔۔۔۔۔
منہال نے صرف اپنے دل میں ہی سوچا لیکن بولا کُچّھ بھی نہیں۔۔۔۔۔
منہال خود کو سنبھالتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
مدیحہ چھوڑو ان باتوں کو اور تم مجھے یہ بتاؤ
تم اتنے غصے میں کیوں ہو؟؟؟
مدیحہ اپنے بھائی کا یوں بات کو بدل جانے پر کُچّھ بھی نہیں بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اپنی ناراضگی کو برقرار رکھتے ہوئے چہرا موڈ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے!!!
مت بتاؤ میں جا رہا ہوں پھر۔۔۔۔۔۔۔۔
منہال جانتا تھا لیکن پھر بھی انجان بنتے ہووے بولا۔۔۔
اور ہاں!!!
لندن سے جو واچ میں تمہارے لیے لایا تھا وہ اب میں اپنی سیکرٹری یاسمین کو دے دونگا۔۔۔۔
سوچیے گا بھی مت ورنہ
کیا ورنہ ؟؟؟
بھئی تم تو مجھ سے ناراض ہو نہ ۔۔۔۔۔
اور جب تم ناراض ہو۔۔۔۔ تو میں وہ واچ اپنی دوسری بہن کو دے دونگا تو کیا ہو جائےگا؟؟؟
منہال بہن لفظ پر جور دیتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
بھائی ی ی ی!!!!
مدیحہ چیخ ہی تو پڑی تھی۔۔۔۔۔
آپ جانتے ہے کی میرے علاوہ آپکی بہن اور کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔
اور اسکو اچھے سے یاد رکھیے گا سمجھے۔۔۔۔
مدیحہ منہال کو وارننگ دیتے ہووے بولی۔۔۔۔
اوک اوک !!!!
میں یاد رکھونگا آگے سے۔۔۔۔۔
منہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔
بھئی اب تو بتا دو کیوں ناراض ہو مجھ سے؟؟؟؟
منہال مدیحہ کو ایک بار پھر منانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔
بھائی آپ سچ میں ہی نہیں جان تے کی میں آپ سے ناراض کیوں ہوں؟؟؟؟
مدیحہ نے بھویں اُچکاتے ہوئے منہال سے پوچھا۔۔۔۔
منہال نے معصومیت سے کندھے اچکاتے ہووے گردن نہ میں ہلادی۔۔۔
تو ٹھیک ہے میں بتا تی ہوں ۔۔۔
کہ۔۔۔
میں آپ سے ناراض کیوں ہوں ؟؟؟
مدیحہ منہال کو گھورتے ہوئے بولی۔۔۔۔
میں آپ سے اس لیے ناراض ہوں۔۔
کیونکہ آپ مجھ سے کتنے دین بعد مل رہے ہیں۔۔۔۔
اور وہ بھی میں خود آپکے روم میں چل کر تشریف لائی ہوں۔۔۔۔
لیکن اپنے میرے روم تک آنے کی کوئی زحمت نہیں کی۔۔۔۔
مدیحہ منہال سے منہ پھولاتے ہووے بولی۔۔۔۔
اچھا۔۔۔
تم اس لیے ناراض تھی ۔۔۔۔۔
میں نے سوچا پتہ نہیں مجھ سے تمہارا کون سا کوهی نور کا ہیرا گم ہو گیا۔۔۔۔۔
منہال مدیحہ کو چھیڑتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
بھائی آپ جانتے ہیں آپ میرے لیے کوھی نور کے ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔۔۔
اچھا ا ا ا.....
منہال اچھا کو خیچھتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
تو پھر تم اس کوہی نور کے ہیرے کو کیوں معاف نہیں کر دیتی۔۔۔۔
سوری اب آگے سے پکّا ایسا کبھی نہیں کرونگا ۔۔۔۔۔
منہال کانوں کو پکڑتے ہووے مدیحہ سے سوری کہا۔۔۔
ٹھیک ہے بھائی !!!
کیا یاد کروگے آپ۔۔۔
جاؤ میں نے آپکو معاف کیا۔۔۔۔
مدیحہ نے احسان کرتے ہووے منہال سے کہا ۔۔۔
اب لاؤ میری واچ۔۔۔۔۔
وہ تو میں نے تمہارے روم رکھ دی تھی۔۔۔۔
کیا؟؟
اور آپ بتا سکتے ہیں اپنے واچ کب رکھی؟؟؟؟
مدیحہ چیخ ہی تو پڑی تھی۔۔۔۔۔
وہ تو میں نے کل رات ہی رکھ دی تھی ۔۔۔۔۔
منہال نے معصومیت سے مدیحہ کو بتایا۔۔۔۔۔
یعنی بھائی میری ناراضگی بے وجہ تھی۔۔۔۔۔
مدیحہ کو اپنی ناراض ہونے پر افسوس کرتےہووے بولی۔۔۔۔۔
کوئی بات نہیں گڑیا۔۔۔۔۔
کیا ہوا یہ تو تمہارا مجھ پر حق ہے ۔۔۔۔۔
اگر تم مجھ سے ناراض نہیں ہوگی مجھ پر غصّہ نہیں کروگی یا پھر مجھ پر اپنے بہن ہونے کا حق نہیں جتاؤگی تو کس سے جتاوگی ۔۔۔۔۔۔
منہال نے مدیحہ کو پیار سے سمجھایا۔۔۔۔۔۔
بھائی
میں آپ کو ایسے ہی نہیں کہتی
مدیحہ منہال کے گلے میں بانہیں ڈال تی ہوئی بولی ۔۔۔۔
کیا ؟؟؟؟
منہال جانتا تھا کہ اب اسکی پیاری بہن کیا بول نے والی ہیں؟؟؟؟
لیکن پھر بھی انجان بنتے ہووے پیار سے مدیحہ کا سر سہلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔
مدیحہ بولی۔۔۔۔
You are the best brother of the whole world....
منہال مدیحہ کو پیار سے ہٹاتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
بس بس!!!
بھئی مجھ سے اتنی تعریف ہضم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
بھائی!!!
آپ ہمیشہ یہی کرتے ہے۔۔۔۔
مدیحہ گبّارے کی طرح منہ پُھولاتے ہووے بولی۔۔۔۔
منہال نے مدیحہ کو ایسے منہ پُھولاتے ہوئے دیکھا تو اپنی ہنسی کو قابو میں کرتے ہووے بولا۔۔۔۔
ارے میری بھولی بھالی بہن میں تو بس مذاق کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے بھائی!!!!
میں اب تو ماں رہی ہوں لیکن آگے سے کبھی نہیں مانونگی سمجھے۔۔۔۔۔۔
مدیحہ منہال کو دھمکی دیتے ہوئے بولی۔۔۔۔
ہاں ہاں لسٹ اب آگے سے نہیں کرونگا۔۔۔۔۔
منہال جلدی سے بولا۔۔۔۔
کہیں پھر سے منہ نہ پھلالے ۔۔۔۔۔۔
مچھا گاڑیاں ماما کہا ہیں؟؟؟؟
منہال کُچّھ دیر چپ رہنے کے بعد مدیحہ سے پوچھا۔۔۔
بھائی ماما تو شاپنگ پر گئی ہے ۔۔۔۔۔
آپ کہاں پر کا رہے ہیں؟؟؟؟؟
مدیحہ منہال کو ایسے تیار دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔۔
ہاں گاڑیاں شوٹنگ پر جا رہا ہوں نائٹ ہے نہ اس لیے۔۔۔۔
آپ ماما سے بتا دینا وہ میرا انتظار نہ کریں۔۔۔۔
منہال مدیحہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بولا۔۔۔۔
اوک بھائی میں ماما کو بتا دنگی۔۔۔۔۔
آپ اپنا بہت بہت خیال رکھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔
مدیحہ نے منہال کو اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
اوک آپ بھی اپنا اور ماما کا خیال رکھنا ۔۔۔۔۔۔
منہال یہ بول کر اپنے روم سے نکلتا ہوا باہر گیراج میں آ گیا جہاں پر اُسکا ڈرائیور اُسکا بہت دیر سے ویت کر رہا تھا۔۔۔۔۔
منہال ابھی اپنی بڑی سی گاڑی کے پاس گیا ہی تھا ۔۔۔۔
جب اُسکا موبائل وائبریٹ ہوا اُسنے اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر دیکھا جہاں پر صرفان کلنگ لکھا ہوا جگمگاتا تھا۔۔۔۔
منہال نے کل اٹینڈ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
السلام وعلیکم!!!!
دوسری طرف سے صرفان چہکتے ہووے بولا
وعلیکم السلام میرے بھائی !!!!
اب کیسے ہو؟؟؟
کیوں مجھے کیا ہوا؟؟؟؟
منہال نے حیرانی سے صرفان سے پوچھا۔۔۔۔۔۔
بھائی بلڈ دیا تھا نہ تو اس لیے پوچھ لیا۔۔۔۔۔
صرفان دوسری طرف سے معصومیت سے بولا۔۔۔
ہاں !!!
میں تو بلکل تھیک ہوں!!!
لیکن تم یہ بتاؤ اب وہ لڑکی کیسی ہے؟؟؟؟
میرا مطلب اب اُسکی طبیعت کیسی ہے؟؟؟؟
منہال نے صرفان سے اس لڑکی کی طبیعت کا پوچھا۔۔۔
MS
یار وہ اب بلکل تھیک ہے۔۔
اُسکا آپریشن بھی سکسیسفل رہا ہے۔۔۔
بس ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اسکو پرائیویٹ روم میں منتقل کیا ہے۔۔۔۔
اچّھا!!!
منہال ایک لفظی جواب دے کر خاموش ہو گیا۔۔۔۔
جس خاموشی کو صرفان توڑتے ہووے بولا۔۔۔۔
منہال آج تیرے پاس وقت ہے۔۔۔۔۔
کیوں ؟؟؟؟
منہال نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
یار بہت دن ہو گئے ہم دونوں کو آؤٹنگ پر گئے ہوئے۔۔۔۔
اور میرا دل تیرے ساتھ اؤٹنگ پر جانے کو کر رہا ہے۔۔۔
اس لیے ہی میں نے تجھ پر فون کیا ہے۔۔۔۔۔
صرفان نے منہال سے کہا۔۔۔۔
نہیں ابھی تو میں شوٹنگ پر جانے کو تیّار کھڑا ہوں۔
بلکہ ابھی کار میں بیٹھ نے ہی والا تھا۔۔۔۔
لیکن شیری تُجھے تو پتہ ہی ہیں میرا شیڈیول کا
مجھے بلکل بھی ٹائم نہیں مل رہا ہیں۔۔۔۔
میں چاہئے کر بھی ٹائم نہیں نکال پا رہا ہوں۔۔۔
ابھی مدیحہ کی بھی مجھ سے یہی شکایت تھی۔۔۔۔۔
اُسکو بھی ابھی میں منا کر آ رہا ہوں۔۔۔۔
اور اب تیری کال۔۔۔
منہال نے بیبسی سے صرفان کو کہا۔۔۔۔
صرفان بولا اچّھا ٹھیک ہے۔۔۔۔
پھر کبھی چلےگے۔۔۔۔
تو جا اپنی شوٹنگ پر تُجھے لیٹ ہو رہا ہو گا نہ۔۔۔۔۔
نہیں ابھی لیٹ تو نہیں ہو رہا ہوں ۔۔۔۔
شوٹنگ تو گیارہ بجے شروع ہوگی۔۔۔۔۔۔
منہال نے صرفان کو بتایا ۔۔۔۔۔
منہال کُچّھ سوچتے ہوئے دوبارہ بولا ۔۔۔۔
شیری تو ایک کام کر آج میرے ساتھ شوٹنگ پر چل وہیں پر بریک میں ہم دونوں ٹائم سپیڈ بھی کر لینگے۔۔۔۔
اوہ بھائی !!!
یہ مشورے اپنے پاس ہی رکھ مجھے کوئی شوق نہیں ہے رات کو اُلّو کی طرح جاگنے کا۔۔۔
بس تو ہی بن اُلّو سمجھا۔۔۔۔
صرفان نے منہال سے کہا ۔۔۔۔۔
کوئی بات نہیں میں تو تیرا اوٹنگ بنانے کا انتظام کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
اب جب تُجھے پسند نہیں آ رہا ہے تو رہنے دے۔۔۔۔۔۔۔
اچّھا چل كل بات کرتے ہیں۔۔۔۔
میں اب جا رہا ہوں۔۔۔
منہال نے صرفان سے بول تے ہووے کال ڈسکنیکت کر دی۔۔۔۔۔
اور اپنی گاڑی کے پاس جاکر ڈرائیور سے بولا ۔۔۔۔۔
بلال آج میں اکیلا ہی جا رہا ہوں ۔۔۔۔
تم نہیں جاؤگے میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔
اس لیے تم جاؤ ۔۔۔۔۔
O ok sir...
بلال نے منہال کو ڈرتے ہوئے اوک بولا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔
منہال کار کا گیٹ کھولا اُس میں بیٹھ کر شوٹنگ کے لیے روانہ ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
********************
ماضی۔۔۔۔۔۔۔
سلمان شاہ(سللو) گھر چھوڑ کر آ تو گیا تھا۔۔۔۔۔
لیکن اُسکی سمجھ نہیں آ رہا تھا کی وہ کہا پر جائے۔۔۔۔۔
وہ بس اسٹینڈ پر بیٹھا ہوا آنے جانے والے مسافروں کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
اُسکی یہاں پر بیٹھے ہوئے ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
لیکن ااُسکو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔
کہ وہ کہاں پر جائے؟؟؟؟؟
کس سے ہیلپ مانگے؟؟؟؟
وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا جب اسے دو لڑکے جو اُسکی ہی ہم عمر تھے انکو بات کرتے ہوئے سنا وہ لڑکے آپس میں بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔
سلمان انکی بات سننے کے لئے انکے قریب جاکر کھڑا ہو گیا اور غور سے انکی باتوں کو سن نے لگا۔۔۔۔۔
جو لڑکا لیفٹ ہند سائڈ چیئر کے پاس کھڑا تھا اُسنے دوسرے لڑکے سے کہا۔۔۔۔۔۔
روحان میرے بھائی تو ٹینشن مت لے سب ٹھیک ہو جائےگا ۔۔۔۔
اللہ پر یقین رکھ اللہ کبھی اپنے نیک بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔۔۔۔
جس لڑکے کا نام روحان تھا وہ بولا ۔۔۔۔
ہاں شفان تو ٹھیک بول رہا ہے مجھے اللہ پر بہت یقین ہے وہ کبھی مجھے مایوس نہیں ہونے دے گا ۔۔۔۔
لیکن شفان مجھے ڈرّ ہے کہ اگر میں اس بار فیل ہو گیا تو بابا کو کیا جواب دونگا ۔۔۔۔۔
بابا تو ویسے ہی مجھ سے خفا رہتے ہیں۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوگا روحان کُچّھ بھی نہیں۔۔۔
کیسے بھی ماں باپ ہو لیکن وہ اپنے بچّوں سے بےانتہا محبّت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
شفان نے روحان کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
چل ٹھیک ہے میرے بھائی سچ میں تونے میرے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔
روحان نے جانے کی اجازت مانگتے ہووے شفان سے بولا ۔۔۔۔۔۔۔
شفان نے روحان سے گلے ملتے ہووے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
روحان زندگی میں اگر تُجھے کبھی بھی کہیں پر بھی ضرورت پڑے تو بے جھجھک ہو کر مجھے آواز دینا تیرا یہ دوست ہمیشہ تیرے ساتھ دیگا۔۔۔۔۔۔۔
اوک اللہ حافظ۔۔۔۔۔
وہ دونوں چلے گئے تھے لیکن سلمان شاہ کو راستہ بتا گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمان شاہ کو وہ دن یاد آنے لگا۔۔۔
جب اُسکے اسکول میں سپورٹس کی وجہ سے مخالف ٹیم سے لڑائی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
ہوا یہ تھا۔۔
اسکول میں سپورٹس ڈے منایا جا رہا تھا دوسرے اسکول کے بچّے بھی انکے اسکول میں کمپیٹیشن میں حصّہ لیے کر آئے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمان شاہ بھی کبڈی کھیل کے ایک ٹیم کا کیپٹن تھا۔۔۔۔۔
جب وہ لوگ کبڈی کھیل نے کے لیے تیار ہو رہے تھے جب مخالف ٹیم بھی تیار ہونے کے لیے سپورٹس روم میں آئی ۔۔۔۔۔۔
اور آتے ہی الن لوگوں نے سلمان شاہ کی ٹیم کو لوزر کہہ کر پکارنے لگے۔۔۔۔۔۔
سلمان شاہ کو غصّہ آنے لگا ۔۔۔۔۔۔
سلمان نے غصے میں آکر وہاں پر رکھا واٹر جگ کو ہاتھ مار کر زمین پر گرا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
جو مخالف ٹیم تھی جگ کو ایسے زمین پر دیکھ کر خاموش ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمان شاہ غصے میں آکر مخالف ٹیم کے کیپٹن سے جاکر وارننگ دیتے ہووے بولا ۔۔۔۔۔۔۔
آئندہ اگر تم میں سے کسی بھی شخص نے بنا ہار جیت ہووے کبھی کسی کو بھی لوزر کہا نا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمان شاہ کا وارننگ کا ایسا انداز تھا کی وہ سامنے والے کو ابھی زمین میں گاڑ دیگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پل کے لیے تو مخالف ٹیم کے کیپٹن کو بھی ڈر سے لگنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ اپنے ڈر پر الد ہی قابوں پاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
نہیں تو کیا کر لے گا ہاں؟؟؟؟؟
مجھے مارے گا۔۔
ارے
تو مجھے اپنے بُرا ہونے کی دھمکی دے رہا ہے۔۔۔۔۔۔
تو مجھے نہیں جانتا ہے۔۔۔۔
میں کس کی اولاد ہوں ؟؟؟؟؟
سلمان شاہ اُسکی بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوئے بولا ۔۔۔
اوۓ ۔۔۔۔۔
تو جس کسی کی بھی اولادہے۔۔۔
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اپنے بارے میں سنے گئے یہ الفاظ ہم میں سے کوئی بھی شخص برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔
سمجھے۔۔۔۔۔۔
سلمان شاہ یہ بول کر وہاں سے جانے ہی لگا تھا جب پیچھے سے کسی نے سر میں کوئی بھاری سی چیز ماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے سپورٹس روم میں شور مچ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر جو سلمان کے لیے فریش واٹر لینے گیا تھا سپورٹس روم کے سامنے بھیڑ کو دیکھ کر گھبراتے ہووے سپورٹس روم کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔۔۔۔۔
جب جہانگیر سپورٹس روم میں گیا ۔۔۔۔
تو اُسنے وہاں جاکر دیکھا کی اُسکا جان سے پیارا دوست جیسا بھائی خون سے لتھ پٹھ اوندھے منہ پڑا ہے۔۔۔
اُسکے سر سے کافی بلڈ بہ رہا تھا۔۔۔۔
جہانگیر سلمان کو پکارتا ہوا اُسکے پاس آیا ۔۔۔۔۔
سلمان !!!
سلمان میرے بھائی تُجھے کُچّھ نہیں ہوگا میں ابھی
تُجھے ہسپتال لے جاتا ہوں ۔۔۔۔۔
جہانگیر نے جلدی سے دو شخص کی مدد سے سلمان کو ہسپتال میں ایڈمٹ کرایا۔۔۔۔۔
اور احسان انکل کو کال کر کے ہسپتال جلدی آنے کو کہا ۔۔۔۔
اور جاکر سلمان کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔
سلمان کے سر میں زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی۔۔۔۔
معمولی سی چوٹ تھی ۔۔۔۔۔
سلمان کو ڈاکٹر نے نیند کی دوائی دے کر سلایا ہوا تھا جہانگیر سلمان کے پاس سے اٹھ کر ڈاکٹر سے ملنے ہی جا رہا تھا جب اُسنے احسان انکل کو پریشان سے اپنی ہی طرف آتے ہووے دیکھا۔۔۔۔۔
جہانگیر جلدی سے احسان انکل کے پاس جاکر انکو سلام کی۔۔۔۔
السلام وعلیکم انکل ....
وعلیکم السلام بیٹا!!!!
احسان انکل نے پریشان ہوتے ہوئے جہانگیر کی سلام کا جواب دیتے ہوئے جہانگیر سے پوچھا۔۔۔
بیٹا سلمان کہا ہیں؟؟؟؟؟
انکل آۓ میرے ساتھ ۔۔۔۔
جہانگیر نے احسان صاحب کو سلمان کے پاس چھوڑ کر ڈاکٹرز سے دوائی کا پرچہ لینے چلا گیا۔۔۔۔
جب تک وہ دوائی کا پرچہ لیے کر دوائی لینے سٹوری پر گیا اور وہاں سے دوائی لے کر واپس آیا اسکو یہ کام نبتانے میں قریب ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا تھا۔۔۔۔
جب وہ واپس آیا تو سلمان نیند سے بیدار ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
جہانگیر نے سلمان کو ایک نظر دیکھ کر غصے سے منہ پُھلاتے ہوئے دوائی کا شاپر ایک طرف رکھ کر واپس روم سے باہر جانے لگا ۔۔۔۔۔
جب اُسے سلمان نے آواز دی۔۔۔
جاہو!!
کہا جا رہے ہو؟؟؟؟
جہانگیر بنا پیچھے مڑے بولا۔۔۔۔۔
تم سے مطلب۔۔۔۔
میں کہیں پر بھی جاؤ؟؟؟؟
مجھ سے مطلب نہیں ہوگا تو کس سے ہوگا؟؟؟؟
سلمان نے بھی اسکو اسی کے انداز میں جواب دیا ۔۔۔
اور جھانگیر کی یہی تک بس تھی۔۔۔
جہانگیر سلمان کے پاس آکر اُسکے گلے لگتے ہوئے روتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
میں نے تُجھے کتنی بار منا کیا ہے کی تو کسی سے بھی پنگے مت لیا کر لیکن تو میری نہیں سنتا ۔۔۔
دیکھ لیا نہ تونے نتیجہ ۔۔۔۔
اگر تُجھے کُچّھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا؟؟؟؟؟
جہانگیر سلمان سے الگ ہوتے ہووے سلمان کو ایک مقّہ رسید کرتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
آ آ آ آ ں....
سلمان کرّاہتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
اوۓ بھائی ابھی تی تو میری فقر میں زمین آسمان ایک کرنے کو تیار تھا اب تو ہی اپنے ان ظالم هاتوں سے مارنے کو تیار ہو۔۔۔۔۔۔
اور کیا کرو؟؟؟
جب تو کیسی کی نہیں سنتا تو تیرا یہ روز مرہ کا ڈراما ہی بند کر دیا دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
جہانگیر غصے میں سلمان کو گھورتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
آئندہ اگر تونے بنا میری اجازت کے کسی پتّے تک کو بھی ہلایا تو اپنا حشر دیکھ نہ سمجھا۔۔۔۔۔
جہانگیر سلمان لو وارننگ دیتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔
اچّھا میرے بھائی بس رہنے دے ۔۔۔۔
میں بلکل تھیک ہوں۔۔۔۔۔۔
نہیں سلمان تجھ کو مجھ سے وعدہ کر نہ ہو گا۔۔۔۔
کہ تو کبھی بھی کوئی بھی کام بنا میری اجازت کے نہیں کروگے۔۔۔۔۔
اچّھا ٹھیک ہے !!!
لو کیا میں نے تجھ سے وعدہ۔۔۔۔
سلمان جاگیر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
ہاں اب تھیک ہے۔۔۔۔
جھانگیر کو کچھ یاد آتے ہوئے پھر سے بولا۔۔۔
سلمان تُجھے مجھ سے ایک اور وعدہ کرنہ ہوگا ۔۔۔۔۔
جہانگیر سلمان کر ھاتوں کو پکڑتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
کون سا وعدہ؟؟؟؟
تُجھے مجھ سے یہ وعدہ کرنا ہو گا۔۔۔۔
اگر تو کہیں پر بھی چاہے کیسا بھی مشکل وقت ہو تو مجھ سے ہمیشہ اپنی دوستی اور یہ جو ہم دونوں کی محبّت ہے اسکو برقرار رکھے گا۔۔۔۔
اور ہاں اگر تُجھے کبھی ایسا لگے کی تو اب اکیلا ہیں تو اپنے بھائی کے پاس آ سکتا ہے ۔۔۔۔۔
میں تیرے ساتھ ہمیشہ سے تھا ۔۔۔۔
ہمیشہ سے ہوں۔۔۔۔۔۔
اور ہمیشہ ہی رہونگا۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر تو ایسی باتیں کیوں کر رہا ہے؟؟؟؟؟
اس میں بھی کوئی وعدہ لینے والی بات ہے؟؟؟؟
ہماری محبّت کسنے بانٹی؟؟؟
ہم دونوں بھائی تو اس محبّت کی سانجہ دار ہیں۔۔۔۔
اور اگر میں کبھی پریشانی میں ہوتا ہوں تو تو ہی تو ہی تو ہیں۔۔۔۔
جو میرا ہمیشہ ساتھ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔
تو پھر تُو ایسے کیوں بول رہا ہے؟؟؟؟
سلمان نے جہانگیر سے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔
نہیں بس میں تو ایسے ہی بول رہا تھا۔۔۔۔۔۔
جہانگیر بات کو بدلتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
اچّھا ٹھیک ہے۔۔۔۔
بھئی مجھے یہ بتاؤ۔۔۔۔۔
اس قید میں سے کب آذادی ملےگی۔۔۔۔
يا پھر۔۔۔۔
مجھے بھی 1947 کی طرح۔۔۔۔۔۔
آذادی کے لیے اوّج اٹھانی پڑےگی۔۔۔۔۔
سلمان جہانگیر کا موڈ فریش کرنے کے لیے چٹکُلا چھوڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
ہاں کیو نہیں بھی ابھی ہم تمہیں آذادی دلاتے ہیں۔۔۔۔۔
جہانگیر نے بھی اُسکی بات کا جواب اسی کے انداز میں دیا۔۔۔۔
پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر کہکا لگا کر ہنس پڑے۔۔۔۔۔۔
سلمان شاہ کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر گالوں پر اپنا نشان چھوڑ گئے۔۔۔۔۔
اُسنے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر جہانگیر کو کال ملائی ۔۔۔۔
جو کچھ وقفہ بعد اٹھا کی گئی ۔۔۔۔
السلام وعلکم سلمان نے جہانگیر کو سلام کر تے ہووے بولا۔۔۔۔۔
جہانگیر نے بھی سلمان کی سلام کا جواب دیتے ہوئے فقرمندی سے سلمان سے پوچھا ۔۔۔۔۔
سلمان خیریت۔۔۔
سلمان نے جب جھانگیر کو اپنے لیے فقر دیکھی تو اُسکا ضبط جواب دے گیا۔۔۔۔۔
اور لڑ کھڑا تی آواز میں روتے فقط اتنا ہی بولا۔۔۔۔۔
جہانگیر!!!!
سلمان میرے بھائی تو کیوں رو رہا ہے؟؟؟؟
انکل نے کُچّھ کہا ہے کیا؟؟؟؟؟
اچّھا ٹھیک ہے تو یہ بتا تو کہاں پر ہے ؟؟؟؟؟
میں ابھی آتا ہوں تیرے پاس!!!
پھر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔
جہانگیر پریشان ہوتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
م میں باندرہ بس اسٹینڈ پر ہوں!!!!!
ٹھیک ہے !!!
تو وہیں پر رہنا ۔۔۔۔
میں ابھی پانچ منٹ میں تیرے پاس آتا ہوں ۔۔۔۔۔
جہانگیر آئی
نے اتنابول کر کال کاٹ دی۔۔۔۔۔
اور اپنی ہیوی بائک لیکر سلمان کے پاس بلکل صحیح پانچ منٹ میں موجود تھا۔۔۔۔۔۔
سلمان نے جب جہانگیر کو دیکھا تو اُسکا ضبط جواب دے گیا ۔۔۔۔
اور جہانگیر کے گلے لگ کر زارو قطار رونے لگا۔۔۔۔۔
جہانگیر جو سلمان کو اس حالت میں دیکھکر بہت زیادہ پریشان ہو گیا تھا ۔۔۔۔
اسکو ایسے اپنے گلے لگ کر اور زیادہ پریشان ہوتے ہووے بولا۔۔۔۔۔۔
سلمان میرے بھائی !!!!
ت تو ایسے کیوں رو رہا ہے۔۔۔۔۔۔
اچّھا !!!
ت تو ایک کام کر چل میرے ساتھ میرے بابا کے دوسرے اپارٹمنٹ میں ۔۔۔
وہاں جاکر کرتے ہیں بات ۔۔۔۔۔
چل بیٹھ بائک پر۔۔
جہانگیر نے سلمان کو بولتے ہووے اس سے اُسکا سامان لے کر بائک پر باندھا اور اُسکو اپنے ساتھ لے کر اپنے بابا کے اپارٹمنٹ چلا آیا۔۔۔۔۔
جہانگیر نے پہلے سلمان کو پانی پلایا۔۔۔۔
پھر اسکو کُچّھ کھیلا کر اُسکے دودھ میں نیند کی ٹیبلیٹ ملکر اسکو پلا کر باہر چلا آیا۔۔۔۔
جہانگیر کے دماغ میں الگ الگ سوال اٹھ رہے تھے۔۔۔۔
لیکن اسکو سلمان کی حالت ایسی نہیں لگی کی وہ اُسّے کُچّھ پوچھ سکے۔۔۔۔۔
اس لیے ہی تو اُسنے اُسکے دودھ میں نیند کی ٹیبلیٹ ملائی تھی تاکہ وہ پرسکون ہو کر سو جائے۔۔۔۔۔
جہانگیر سلمان کو اپنے بابا کے اپارٹمینٹ میں چھوڑ کر کُچّھ دیر کے لیے اپنے گھر آ گیا تھا۔۔۔۔۔
***********************
حال۔۔۔۔۔۔
مائشا کو ہوس آ گیا تھا ۔۔۔۔
اسے دوسرے روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔۔۔۔
شہزین اور شاہزیب دونوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔۔ انھونے اللہ کا شکر اسلئے نہیں ادا کیا۔۔۔
کہ مائشا کو ہوس آیا تھا۔۔۔
بلکہ اس لیے اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔۔
کہ اُن کی ماما بچ گئی تھی ۔۔۔
بھائی!!!
میں سوچ رہا ہوں ۔۔۔۔
کہ اب ہمیں مائشا کو گھر لے جانے کے لیے ڈاکٹر سے بات کر لینی چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کب تک ہم اسکو ہسپتال میں رکھینگے ۔۔۔۔۔۔
اسکے لیے اتنا ہی کافی ہے کی اُسکی جان بچا دی۔۔۔۔۔
تین دن ہو گئے ہے ۔۔۔۔۔۔
اسکو ہسپتال میں لاکھوں خرچ ہو گیا ہے۔۔۔
اس مہارانی پر۔۔۔۔
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔
کہ آخر یہ کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟؟؟؟
کہ ہم اس پر بہت ظلم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ تو اچھا ہوا کی یہ ہسپتال صرفان کے بابا کا ہے۔۔۔۔۔
جو ہمیں کچھ نہیں کہا گیا ۔۔۔۔۔
نہیں تو سب سے پہلے مریض کو ایڈمٹ کرنے سے پہلے اس کیس میں پولیس انکوئری ہوتی ہے۔۔۔۔۔
شاہزیب نے اپنی دل کی بھڑاس نکال تے ہوئے ہر لفظ کو چبا چبا کر بولا ۔۔۔۔۔۔۔
تم تھیک بول رہے ہو!!!!!!
شاہزیب اس لڑکی نے تو ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے۔۔۔۔۔۔
جب سے اس مہارانی کو چچا جان ہمارے حوالے چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ کو پیارے ہووے ہے۔۔۔۔۔۔۔
جو اس لڑکی نے کوئی بھی کام ڈھنگ سے کیا ہو۔۔۔۔۔
شہزین کچھ سوچتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔۔
جاؤ شاہزیب صرفان سے بات کرو۔۔۔۔۔
وہ مائشا کو کب تک ڈسچارج کرینگے؟؟؟؟؟
اس مہارانی کے لیے۔۔۔۔۔
اب مجید مجھ میں یہاں روکنے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔۔۔
اور ان تین دنوں میں ہمارے بز نس کو بہت لاس ہوا ہے۔۔۔۔
اب مجید میں اور لاس افورڈ نہیں کر سکتا۔۔۔۔ سمجھ رہے ہو نہ میری بات ۔۔۔۔۔۔
شہزین نے شاہزیب کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اوکے بھائی!!!!
میں ابھی بات کرتا ہوں جاکر ۔۔۔۔۔
شاہزیب یہ بول کر صرفان سے بات کرنے چلا گیا۔۔۔
*****************
منہال کار میں بیٹا ٹریفک کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔
ا
سکو وہاں پر کھڑے ہوئے پانچ منٹ سے بھی زیادہ وقت گزر گیا تھا۔۔۔۔
پر یہ ٹریفک کھلنے کا ہی نام لے رہا تھا۔۔۔۔
منہال کار اسٹیئرنگ پر ہاتھ جمائے ادھر اُدھر نظر دوڑا رہا تھا ۔۔۔
تبھی اُسّے سامنے سے دو کپل آتے ہوئے دکھائی دیے ۔۔۔۔۔
شاید وہ یونیورسٹی سٹوڈینٹ تھے۔۔۔۔۔
منہال نے خود سے ہی اندازہ لگایا۔۔۔۔
وہ دونوں۔شاید کسی بات پر جانا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
منہا کو الن دونوں میں اپنا ہی عقس نظر آنے لگا۔۔۔۔
جیسے وہ اور جیا ہے وہ بھی تو بلکل ایسے ہی کرتے تھے یونیورسٹی سی آتے ہووے۔۔۔۔
کبھی کبھی تو وہ دونوں اپنی کار کو کہیں پارکنگ میں۔کھڑی کرکے پیدل ہی شیر سپاٹے کرنے نکال جاتے تھے منہال کو اپنا ماضی یاد آتے ہی بے اختیار دو موتی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے۔۔۔۔
وہ اپنے ماضی میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا۔۔۔کہ اُسّے اپنے آس پاس ہونے والی کیسی بھی چیز کا علم نہیں رہا۔۔۔۔
تبھی کسی نے رائٹ ہینڈ سائڈ سے اُسکی کارمند کی کھڑکی کا شیشہ نوک کیا ۔۔۔۔۔
ٹک ٹک..........
ٹک ٹک ٹک..........
ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئی بار نوک کیا۔۔۔۔۔۔
لیکن اُسّے کُچّھ بھی نہیں سنائی دیا ۔۔۔۔۔۔
سنہ تو تب ۔۔۔۔۔
جب اُسے اپنے آس پاس سے کار کے ہارن کی آواز اپنے چاروں طرف سے سنائی دینے لگی۔۔۔۔۔۔
اس نےایک دم اپنے ماضی سے بیدار ہوتے ہوئے
اپنے آس پاس نظر دوڑائی۔۔۔۔
یہ کیا؟؟؟؟؟
منہال نے خود سے پوچھا۔۔۔۔
شاید۔وہ ابھی بھی صحیح سے اپنے ماضی سے باہر نہیں نکلا تھا۔۔۔۔۔
ایک بار پھر سے کسی نے اُسکی کھڑکی نوک کی۔۔۔۔۔۔
ٹک ٹک.......
ٹک ٹک ٹک ٹک...........
منہال نے اپنے رائٹ ہینڈ سائڈ پر دیکھا۔۔۔۔
منہال نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا اور وہیں سے پوچھا۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟؟؟
ارے بھائی اتنی دیر سے ٹریفک کھولا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔
اور آپ ہے کی بنا وجہ کے یہاں روڈ کے درمیان ٹریفک لگانے کھڑے ہو گئے ہے۔۔۔۔۔
وہ آدمی منہال کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔
س سوری بھائی!!
میں ابھی ہٹاتا ہوں اپنی کار کو۔۔۔۔۔
آئی ایم ریالی ٹو سوری اگین۔۔۔۔۔
منہال نے شرمندگی سے اس آدمی کی دیکھتے ہووے کہا۔۔۔۔۔۔
اور اپنی کار آگے بڑھا لی۔۔۔۔۔۔
ایک بار پھر وہ اپنے ماضی میں کھونے لگا تھا اسے رہ رہ کر اپنا ماضی آج بہت زیادہ پریشان کر رہا تھا۔۔۔۔۔
اُسنے کار ایک سائڈ کھڑی کی اور اسٹیئرنگ سے ماتھا ٹیک کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔
يا اللّہ!!!!!
میرا یہ درد تو کب ختم کریگا۔۔۔۔۔۔۔
اے میرے مولا کوئی تو ہوگا ایسا ۔۔۔۔۔۔۔۔
جو میرے اس درد کو بانٹ سکے۔۔۔۔۔۔
میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔۔۔
منہال کے دل نے خود سے باتیں شروع کر دی تھی ۔۔۔۔۔۔
منہال نے اسٹیئرنگ سے سر اٹھایا۔۔۔۔۔
قرب سے اپنے آپ پر مسکرانے لگا۔۔۔۔۔
جیا تم نے مجھے کسی بھی قابل نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔
مجھے اب اپنے آپ سے بھی نفرت ہونے لگی ہے۔۔۔۔۔
مجھے تم نے اس غلطی کی سزا سنائی جو میں نے کبھی کی ہی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔
منہال خود سے بڑ بڑا تے ہووے اپنے دل کو کشور وار ٹھرانے لگا۔۔۔۔۔
تبھی دل نے آواز اٹھائی۔۔۔۔۔
منہال تم مجھے قصور وار کیسے ٹھہرا سکتے ہو ؟؟؟
تمہارا ہی دماغ سوچتا تھا نہ اسکو دن رات۔۔۔
میں نے تو کبھی اُسے اپنے اندر بسایا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔
نہیں!!!
منہال دل سے بولا۔۔
اگر تم نے کبھی اسکو سوچا نہیں تھا تو اس میں اتنی چبھن کیسی؟؟؟؟
کیوں اتنا دکھ رہا ہے؟؟؟؟
منہال یہ اس لیے دکھ رہا ہے کیونکہ کبھی کبھی دماغ سے لیے ہر فیصلے غلط بھی ہوتے ہے۔۔۔۔۔
جب کہیں پر طوفان آتا ہے تو وہ ایک ہی جگہ کو تھوڑی تحس نحس کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
وہ تو اپنے آس پاس جوڑی ہر چیز کو برباد کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔
ایسا ہی تمہارے ساتھ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو تمہاری زندگی میں طوفان آیا تھا۔۔۔۔۔
یہ بس تمہاری زندگی میں ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
بلکہ تم سے جڑے ہر اس شخص کی زندگی میں آیا تھا جو تم سے بے انتہا محبّت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اب تم اپنے بابا کو ہی دیکھ لو ۔۔۔۔۔۔
ان پانچ سالوں میں تمہارے بابا تم سے کتنے بدگمان ہو کر رہ گئے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب تم مجھے قصور وار ٹھہرا رہے ہو۔۔۔۔۔۔
اور تم ۔۔۔
تم نے تو کبھی میری سنی ہی نہیں تھی۔۔۔۔۔
میں تمہیں بار بار پکارتا رہا۔۔
نہیں منہال!!!!
تم اس لڑکی کی باتوں میں مت آنا ۔۔۔۔۔۔
یہ دھوکے باز ہے۔۔۔۔۔۔
لیکن تم نے ہر بار کی طرح اُس بار بھی اپنے دماغ کو مجھ پر ترجیح دی تھی۔۔۔۔۔
اب بھگتوں۔۔۔۔۔
منہال کے دل نے جیسے منہال کو آئنہ دکھایا تھا۔۔۔۔۔
منہال یہ تمہیں مجھ سے بدگمان کرنا چاہا رہا ہے۔۔۔۔۔
اب منہال کے دماغ نے بھی اپنی پیشکش رکھنی ضروری سمجھی ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں منہال ایسا کُچّھ بھی نہیں ہی میں تمہیں وہ بتا رہا ہوں جو سچ ہے۔۔۔۔۔۔
منہال کا دل بولا۔۔۔۔
نہیں منہال یہ تمہیں بہلا رہا ہے۔۔۔۔۔
منہال کا دماغ بولا۔۔۔۔۔۔
دل اور دماغ کی آپس میں جنگ شروع ہو گئی تھی۔۔۔۔
منہال کا درد سر کرنے لگا پورا بدن پسینے پسینے ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
منہال کے اندر گھٹن حد سے زیادہ بڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔
جب منہال کی برداشت سے باہر ہوا تو منہال چلّا اٹھا۔۔۔۔۔۔۔
بس س س س س س س.................!
بس کرو۔۔۔۔
میں پہلے ہی بہت درد میں ہوں !
اب مزید مجھ میں درد سہنے کے ہمت نہیں ہے۔۔۔۔۔
منہال نے دوسرے اطراف میں گردن موڑتے ہووے کہا۔۔۔۔۔۔
لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
منہال نے خود کو ریلیکس کرنے میں تھوڑا وقت لیا ۔۔۔۔
پھر خود کو ریلیکس کرتے ہووے گاڑی روڈ پر دوڑا دی۔۔۔۔۔۔
ماضی سے نکلنے کے لیے۔۔۔۔۔۔
ریڈیو اون کرنے کو ترجیع دی۔۔۔۔۔۔
منہال نے جیسے ہی ریڈیو اون کیا ۔۔۔۔۔۔
مشہور ( دامیہ فاروق) کی اواز میں۔۔۔۔
گانا۔۔۔۔۔
کبھی روگ نہ لگانا پیار کا۔۔۔۔۔۔۔۔
جل جائےگا دل کا سارا جہاں۔۔۔۔۔
لوگوں میں بچی ہے وفا کہاں۔۔۔۔۔۔
کیا بھروسہ کرنا جھوٹے یار کا۔۔۔۔۔۔۔
سنبھل سنبھل کے چلنا دکھ مت لینا۔۔۔۔۔۔
پیار نہ کرنا دل نہیں دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیار٫ محبّت٫ عشق٫ وفا سب جھوٹی باتیں ہیں۔۔۔۔۔۔
جہاں دن ہیں اُجڑے اُجڑے سونی سونی راتیں ہیں۔۔۔۔
کبھی روگ نہ لگانا پیار کا۔۔۔۔
جل جائےگا دل کا سارا جہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دامیہ فاروق
اس سونگ جو سن نے کے بعد اسے رہ رہ کر اُسکے ماضی اور کی یاد اور آنے لگی ۔۔۔۔۔۔
اُسنے جلدی سے ریڈیو بند کیا۔۔۔۔۔
اور کار کی اور سپیڈ بڑا کر اسٹوڈیو جلدی جانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔
وہ ابھی کُچّھ ہی دور چلا تھا ۔۔۔۔۔
جب اُسکے موبائل کی رنگ ٹون بجی۔۔۔۔۔۔
ٹن ٹنا ٹن.............
ٹن ٹنا ٹن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُسکا موبائل جور جور سے چللا کر چپ ہو گیا۔۔۔۔۔۔
لیکن سامنے وال کو آج بلکل بھی رحم نہیں اہم رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
موبائل پھر سے بجنے لگا۔۔۔۔۔۔۔
ٹنہ ٹن ن ن ن ٹن۔۔۔۔۔۔
اب کی بار منہال نے غصے سے موبائل کو اٹھایا ۔۔۔۔۔
بٹن پریس کیا۔۔۔۔۔۔
اپنے غصے سے بھری بھاری مغرور آواز میں دھاڑتے ہووے بولا۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو!!!!!
دوسری طرف اُسکی سیکرٹری یاسمین تھی۔۔۔۔
اس نے منہال کی آواز سنتے ہی درر سے کام نے لگی۔۔۔۔
ہیں بھی کوئی یہ ایسے ہی دماغ کھپانے کے لیے فون ملاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
منہال پھر سے غصّے میں دھاڑتے ہووے بولا۔۔۔
س س سر !!!
م مم میں یاسمین!!!
کیا م مم میں لگا رکھی ہیں؟؟؟؟؟؟
بولنا نہیں آتا کیا؟؟؟؟
منہال غصّہ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
ہاں بولوں ۔۔۔۔۔
کیوں فون کیا ہے؟؟؟؟؟؟
منہال اپنے غصّے کو قابو میں کرتے ہووے بولا۔۔۔۔۔۔
سر آج کی شوٹنگ کینسل ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔
کیونکہ ڈائریکٹر نے کہا ہے ۔۔۔۔۔
وہ بول رہے ہیں کہ شوٹنگ دو دن بعد شروع کی جائیگی۔۔۔۔۔
یاسمین نے ایک ہی سانس میں منہال کو ساری بات بتا دی۔۔۔۔
کیا یا یا یا؟؟؟؟؟؟
اور تم اب بتا رہی ہو؟؟؟
منہال نے یاسمین کو ڈانٹتے ہووے کہا۔۔۔۔۔۔
س سر ڈائریکٹر سر نے ابھی بتایا ہیں۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے!!!!!
منہال نے کھٹاک سے فون کات دیا ۔۔۔۔۔۔
اور فون کو غصے سے دیش بورڈ پر پٹک کے کار صرفان کے ہسپتال کی طرف موڑ لی۔۔۔۔۔۔۔۔
منہال نے کار ہسپتال کے باہر جاکر کھڑی کی۔۔۔
اور صرفان کو کال ملائی۔۔۔۔۔
جی دوسری طرف سے ایک ہی بیل میں اٹھا کی گئی تھی۔۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔۔
السلام علیکم!!!
منہال نے سلام کرتے ہوئے صرفان سے کہا۔۔۔۔
شیری باہر آؤ میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں!
دوسری طرف سے۔۔۔۔
صرفان نے منہال کی سلام کا جواب دیتے ہوئے پریشان سے بولا۔۔۔
کیوں؟؟
تم تو شوٹنگ پر گئے تھے نہ؟؟؟؟
سب ٹھیک تو ہے میرے بھائی۔۔۔۔۔
اور تو مجھے یوں اچانک باہر کیوں بولا رہا ہے؟؟؟؟؟
ہاں میں بلکل تھیک ہوں!!
اور آج کی شوٹنگ کینسل ہو گئی ہے۔۔۔۔
اس لیے سوچا۔۔۔۔۔
تمہاری فرمائش ہی پوری کر دوں!!
اچھا!!!
لیکن منہال مجھے ابھی دس منٹ لگے گے۔۔۔۔۔
تم ایسا کرو تم ہی اندر آ جاؤ۔۔۔۔۔
نہیں میں نہیں اہم سکتا اندر۔۔۔۔
تُجھے تو پتہ ہی ہے کی اگر میں بنا کیپ اور بنا ماسک کے باہر نکلا بھی تو میرے آس پاس کتنی عوام اکھٹا ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔
جو مجھے بلکل بھی پسند نہیں ہے۔۔۔۔
اور ویسے بھی میں اس وقت یہ بھیڑ برداشت کر سکتا اس لیے تو ہی آجا باہر ۔۔۔۔۔۔
میں تیرا ہسپتال پارکنگ میں پیچھے کی طرف انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔
منہال نے صرفان سے کہا
ٹھیک ہے!!!!
تو پانچ موٹی انتظار کر میں ابھی آیا۔۔۔۔۔
صرفان نے منہال کی بات کو سمجھ تے ہووے منہال سے بولا۔۔۔۔۔
اوک !!!!
منہال نے یہ بول کر فون کاٹ دیا۔۔۔۔
************************
Assalamualaikum😍😍😍😘😘😘💞💞
Kaise hai aap sab kairiyat se hi hongey....
Mera epi 3bhi complete huwa ..
Arey arey .....
Kahan jaa rahe hai aap....
Bhy mein ne itni mehnat se aap logon ke liye likha hai......
Agar aap apni kanjooshi ko ek taraf rakh kr ....
Mujhe follow krey ge...
Vote dey kr btaayengey ki kaisa laga mera novel.....
To iss na cheez ko bahut khushi hogi......
Aap sab ki duaaon se agla epi aap sab ko jald hi milega ........
Aap sabki piyaari
MalihaChoudhary 💞💞💞💞😘😘😘😘😘
Follow me
Instagram
Arshi khan
24-Mar-2022 09:54 PM
Mashaallah
Reply
Milind salve
23-Mar-2022 11:57 PM
Good
Reply
fiza Tanvi
23-Mar-2022 02:41 PM
Bahut bahut pyari kahani he ۔ Fantastic
Reply